تحقیق کے مطابق ہر تین میں سے ایک بچہ اب نظر کی کمزوری (قریب بینی) کا شکار ہے۔کیسے

Getty Image

ایک عالمی مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ اب ہر تین میں سے ایک بچہ قریب بینی یا دور کی چیزیں صاف دیکھنے میں مشکل کا شکار ہے۔ محققین نے اس بیماری کے بڑھتے ہوئے رجحان کو زیادہ اسکرین ٹائم اور کووڈ-19 وبا کے دوران بچوں کی کم بیرونی سرگرمیوں سے جوڑا ہے۔

یہ تحقیق برٹش جرنل آف اوپتھلمولوجی میں شائع ہوئی، جس میں 50 ممالک کے 50 لاکھ سے زیادہ بچوں اور نوجوانوں کا ڈیٹا شامل کیا گیا۔

اہم نکات

نظر کی کمزوری میں اضافہ

تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1990 کے بعد سے قریب بینی میں نمایاں اضافہ ہوا ہےاور 2023 تک یہ شرح تین گنا بڑھ کر 36% تک پہنچ گئی ہے۔

وبا کے بعد اضافہ

لاک ڈاؤن کے دوران بچوں کا زیادہ وقت گھر کے اندر گزارنا اور کم بیرونی سرگرمیاں اس مسئلے کو مزید بڑھاوا دینے والے عوامل میں شامل ہیں۔

عوامل

زیادہ اسکرین ٹائم، ابتدائی تعلیمی سرگرمیاں، اور کم بیرونی سرگرمیاں اس بڑھتی ہوئی شرح کا باعث بن رہے ہیں۔ سنگاپور اور ہانگ کانگ جیسے ممالک میں بچے دو سال کی عمر سے اسکول جانا شروع کرتے ہیں، جس سے قریب بینی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

لڑکیوں میں زیادہ امکان

لڑکیوں میں جسمانی نشوونما جلد ہونے اور کم بیرونی سرگرمیوں کی وجہ سے ان میں لڑکوں کی نسبت قریب بینی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

علاقائی فرق

ایشیائی ممالک جیسے جاپان (85%) اور جنوبی کوریا (73%) میں قریب بینی کی شرح بہت زیادہ ہے، جبکہ پیراگوئے اور یوگنڈا میں یہ شرح صرف 1% ہے۔ برطانیہ، آئرلینڈ، اور امریکہ میں یہ شرح تقریباً 15% ہے۔

مستقبل کا خدشہ

مطالعے میں انتباہ کیا گیا ہے کہ 2050 تک دنیا کے نصف سے زیادہ نوجوان قریب بینی کا شکار ہو سکتے ہیں، جو عالمی صحت کے لیے ایک بڑھتا ہوا چیلنج ہے۔

طویل مدتی اثرات

ماہرین کو فکر ہے کہ زیادہ قریب بینی کے نتیجے میں عمر بڑھنے کے ساتھ آنکھوں کے مزید مسائل جیسے ریٹینا کی علیحدگی اور گلوکوما جیسی بیماریاں ہو سکتی ہیں، جو مستقبل میں صحت کے نظام پر بوجھ بن سکتی ہیں۔

ماہرین کی سفارشات

بچوں کو روزانہ کم از کم دو گھنٹے باہر گزارنے کی ترغیب دی جاتی ہے، خاص طور پر 7 سے 9 سال کی عمر کے دوران، تاکہ قریب بینی کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔

بچوں میں باقاعدہ آنکھوں کے معائنے کی بھی سفارش کی جاتی ہے، خاص طور پر ان بچوں کے لیے جن کے خاندان میں قریب بینی کی تاریخ موجود ہے۔

مزید تحقیق کے لیے موضوعات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *